دیپ جلتا ہے نہ آتی ہے صدا شام ڈھلے
بھیگ جاتی ہے مِرے گھر کی فضا شام ڈھلے
۔
اب اُسے رات کے صحراؤں میں کرتا ہوں تلاش
جس نے اِک دِن مُجھے ملنے کو کہا، "شام ڈھلے"
۔
بس اسی آس پہ ہم تا بہ سحر جاگتے ہیں
آسمانوں سے اُترتا ہے خُدا شام ڈھلے
۔
وقتِ رُخصت تیرا چہرہ نہیں دیکھا جاتا
خامُشی سے کبھی ہو جانا جُدا شام ڈھلے
۔
آندھیاں رُک کے ادا کرتی ہیں چلنے کا خراج
جب بھی جلتا ہے کوئی ٹُوٹا دِیا شام ڈھلے
۔
ورنہ سُورج کی طرح میں بھی کہیں ڈَھل جاتا
روک لیتی ہے مُجھے میری انا شام ڈھلے
۔
جب بھی گرتے ہیںرگِ جاں میں سُلگتے آنسو
دم بخود دیکھتی رہتی ہے ہوا شام ڈھلے
۔
اِس طرح اُس کو لگی شہرِ جدائی کی ہوا
جیسے لگتی ہے کسی ماں کی دُعا شام ڈھلے
No comments:
Post a Comment