Wednesday, 24 February 2016

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ھر رستہ سنسان ھوا



جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ھر رستہ سنسان ھوا
اپنا کیا ھے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ھوا
یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا

سوچ رھا ھوں اس نگری میں تو کب سے مہمان ھوا
صحرا کی منہ زور ہوائیں اوروں سے منسوب ھوئیں
مفت میں ھم آوارہ ٹھہرے مفت میں گھر ویران ھوا
اتنی دیر میں اجڑے دل پر کتنے محشر بیت گئے
جتنی دیر میں تجھ کو پا کر کھونے کا امکان ھوا
یوں بھی کم آمیز تھا محسن وہ اس شہر کےلوگوں میں
لیکن میرے سامنے آ کر اور بھی کچھ انجان ھوا

No comments:

Post a Comment