Wednesday, 24 February 2016

ڈھلے گی رات آئے گی سحر آہستہ آہستہ





ڈھلے گی رات آئے گی سحر آہستہ آہستہ
پِیو ان انکھڑیوں کے نام پر آہستہ آہستہ

دِکھا دینا اُسے زخمِ جگر آہستہ آہستہ
سمجھ کر ، سوچ کر ، پہچان کر آہستہ آہستہ

Mujhe na saans ati hai



Mujhe na saans ati hai
Na mera damm nikalta hai

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا




جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گل چھوڑ گیا، دل مرا پاگل نکلا

جب اُسے ڈھونڈنے نکلے تو نشاں تک نہ ملا
دل میں موجود رہا، آنکھ سے اوجھل نکلا

اک ملاقات تھی جو دل کو سدا یاد رہی
ہم جسے عمر سمجھتے تھے، وہ اک پل نکلا

وہ جو افسانۂ غم سن کے ہنسا کرتے تھے
اتنے روئے ہیں کہ سب آنکھ کا کاجل نکلا

ہم سکون ڈھونڈنے نکلے تھے پریشان رہے
شہر تو شہر ہے، جنگل بھی نہ جنگل نکلا

کون ایوب پریشان نہیں تاریکی میں
چاند افلاک پہ، دل سینے میں بے کل نکلا

دیپ جلتا ہے نہ آتی ہے صدا شام ڈھلے



دیپ جلتا ہے نہ آتی ہے صدا شام ڈھلے
بھیگ جاتی ہے مِرے گھر کی فضا شام ڈھلے
۔
اب اُسے رات کے صحراؤں میں کرتا ہوں تلاش
جس نے اِک دِن مُجھے ملنے کو کہا، "شام ڈھلے"

نہ رب لبھا نہ یار مِلیا



جس کھَٹ کے سب گنوا چھڈیا
فیر اوہ وپاری کس کاری
نہ رب لبھا نہ یار مِلیا

سکون روٹھ بیٹھا ھے



سکون روٹھ بیٹھا ھے 
درد کے جزیروں نے
آرزو کے جیون کو
مقبروں میں ڈالا ھے

سائیاں ذات ادھوری ہے، سائیاں بات ادھوری ہے




سائیاں ذات ادھوری ہے، سائیاں بات ادھوری ہے
سائیاں رات ادھوری ہے،سائیاں مات ادھوری ہے
دشمن چوکنا ہے لیکن،سائیاں گھات ادھوری ہے

سائیاں رنج ملال بہت، دیوانے بے حال بہت
قدم قدم پر جال بہت، پیار محبت کال بہت
اور اس عالم میں سائیاں، گزر گئے ہیں سال بہت

سائیاں ہر سو درد بہت، موسم موسم سرد بہت
رستہ رستہ گرد بہت، چہرہ چہرہ زرد بہت
اور ستم ڈھانے کی خاطر، تیرا اک اک فرد بہت

سائیاں تیرے شہر بہت، گلی گلی میں زہر بہت
خوف زدہ ہے دہر بہت، اس پہ تیرا قہر بہت
کالی راتیں اتنی کیوں، ہم کو اک ہی پہر بہت

سائیاں دل مجبور بہت، روح بھی چور و چور بہت
پیشانی بے نور بہت، اور لمحے مغرور بہت
ایسے مشکل عالم میں، تو بھی ہم سے دور بہت

سائیاں راہیں تنگ بہت، دل کم ہیں اور سنگ بہت
پھر بھی تیرے رنگ بہت، خلقت ساری دنگ بہت
سائیاں تم کو آتے ہے، بہلانے کے ڈھنگ بہت

سائیاں میرے تارے گم، رات کے چند سہارے گم
سارے جان سے پیارے گم، آنکھیں گم نظارے گم
ریت میں آنسو ڈوب گئے،راکھ میں ہوئے شرارے گم

سائیاں رشتے ٹوٹ گئے، سائیاں اپنے چھوٹ گئے
سچ گئے اور جھوٹ گئے، تیز مقدر پھوٹ گئے
جانے کیسے ڈاکو تھے، جو لوٹے ہوئوں کو لوٹ گئے

سائیاں تنہا شاموں میں، چنے گئے ہیں باموں میں
چاہت کے الزاموں میں، شامل ہوئے ہے غلاموں میں

چاہت کے الزاموں میں، شامل ہوئے ہے غلاموں میں
اپنی ذات نہ ذاتوں میں، اپنا نام نہ ناموں میں---

سائیاں ویرانی کے صدقے،اپنی یزدانی کے صدقے
جبر انسانی کے صدقے،لمبی زندانی کے صدقے
سائیاں میرے اچھے سائیاں،اپنی رحمانی کے صدقے

سائیاں میرے درد گھٹا، سائیاں میرے زخم بجھا
سائیاں میرے عیب مٹا، سائیاں کوئی نوید سنا
اتنے کالے موسم میں، سائیاں اپنا آپ دکھا

مورا سانول مٹھرا یار پیا



مورا سانول مٹھرا یار پیا
ہو لاکھ بے پرواہ یار پیا
موری مہار تہار ہاتھ تھمی
توہی لے چل چاہے جس دوار پیا
مورا تن من جایو پھونک موا

میڈا عشق وی تُوں، میڈا یار وی تُوں



میڈا عشق وی تُوں، میڈا یار وی تُوں
میڈا دین وی تُوں، ایمان وی تُوں۔ ۔ ۔
میڈا جسم وی تُوں، میڈا روح وی تُوں
میڈا قلب وی تُوں، جند جان وی تُوں۔
میڈا کعبہ قبلہ مسجد منبر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 

جندڑی لٹی تئیں یار سجن



جندڑی لٹی تئیں یار سجن
کدیں موڑ مہاراں تے آ وطن

اے عشق ہمیں برباد نہ کر



اے عشق ہمیں برباد نہ کر
•--------------------------------------------------•
اے عشق نہ چھیڑ آ آ کے ہمیں، ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بہت ناشاد ہیں ہم ، تو اور ہمیں ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں کچھ ، یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں ظلم نہ کر، بیداد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر
جس دن سے ملے ہیں دونوں کا، سب چین گیا، آرام گیا

جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ھر رستہ سنسان ھوا



جب سے اس نے شہر کو چھوڑا ھر رستہ سنسان ھوا
اپنا کیا ھے سارے شہر کا اک جیسا نقصان ھوا
یہ دل یہ آسیب کی نگری مسکن سوچوں وہموں کا

وہ جِس کا نام لے لیا، پہیلیوں کی اوٹ میں



وہ جِس کا نام لے لیا، پہیلیوں کی اوٹ میں
نظر پڑی تو چُھپ گئی، سہیلیوں کی اوٹ میں

لوگو! مجھے اِس شہر کے آداب سکھا دو


کب ہم نے کہا تھا ، ہمیں دستار و قبا دو
ھم لوگ نوا گر ہیں ، ہمیں اِذنِ نوا دو

ہم آئنے لائے ہیں ، سرِ کوُئے رقیباں
اے سنگ فروشو! یہی الزام لگا دو

لگتا ھے کہ میلہ سا لگا ھے سرِ مَقتل
اے دل زدگاں! بازوُئے قاتل کو دُعا دو

میں شب کا بھی مجرم تھا ، سَحر کا بھی گنہگار
لوگو! مجھے اِس شہر کے آداب سکھا دو ................!!!

مسکرا کر ذرا کلام کریں


جانے من آپ ایک کام کریں 

اپنے الزام میرے نام کریں

آپ کی تمکنت کی عمر دراز 

ہم فقیروں کا احترام کریں

بندہ پرور بہار کی رت ہے

مسکرا کر ذرا کلام کریں

ایک دو ساغروں سے کیا ہوگا

کوئ معقول انتظام کریں

اے عدم روز کا یہ جھگڑا کیا 

بات کا سلسلہ تمام کریں

عبدالحمید عدم

سرسوں پھول بنی اور کوئل کوکت راگ مَلھار


سرسوں پھول بنی اور کوئل کوکت راگ مَلھار
ناریاں جھولے ڈال کے دیکھت ہیں ساون کی دھار
جل بِن ماہی جیسی بِرہن تھی کاٹت بَن واس
اب تو ہریالی ہووت ہے من کی اِک اِک آس
بدلی کی ڈولی کی چلمن جب اٹھ جاوت ہے
اَمبر بھی ایسے جلوؤں کی تاب نہ لاوت ہے

کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا


کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا

ایک سبز شاخ گلاب کی تھی اک دنیا اپنے خواب کی تھی
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس کے لئے سب کچھ ہار دیا

سینے سے لگانا چاہتا ہوں


سنو!!!
میں تم سے
کچھ کہنا چاہتا ہوں
بس تم کو اک بار
سینے سے لگانا چاہتا ہوں
سینے سے لگا کر
حال دل سنانا چاہتا ہیں

سن او شہر! اگر تو سن رہا ہے



نہیں نہیں وہم تو نہیں ہے
میرا یقین کرو وہم نہیں ہے

کوئی ہے جو پکار رہا ہے
مجھے اپنے پاس بلا رہا ہے

Hon akayla ..


Hon akayla ..
Zara hath bara day...
Ho saky too...

ھم ماٹی میں سو جائیں گے



 ھم ماٹی میں سو جائیں گے 
ھم آج بہت بے نام سہی
گُمنام سہی،
تھوڑے تھوڑے بدنام سہی
یہ شعر بہت بےقیمت ہیں،

کیا قصور مینے تیرا وے ویریا وے



جنیاں تن میرے لگیاں تینوں اک لگے تے تو جانڑے 
غلام فریدہ دل اوتھے دئیے جتھے اگلا قدر وی جانڑے 
ویریا وے اے اے ہو او ہو او 
کیا قصور مینے تیرا وے ویریا وے 
ویریا وے 

بیتاب تیرے درد سے تھے چارہ گر حفیظ


بیتاب تیرے درد سے تھے چارہ گر حفیظ 
کیا جانیے، وہ درد کے مارے کہاں گئے

جس نے اِک دِن مُجھے ملنے کو کہا،



دیپ جلتا ہے نہ آتی ہے صدا شام ڈھلے
بھیگ جاتی ہے مِرے گھر کی فضا شام ڈھلے
۔
اب اُسے رات کے صحراؤں میں کرتا ہوں تلاش
جس نے اِک دِن مُجھے ملنے کو کہا، "شام ڈھلے"
۔

اے مرے دل کسی سے بھی شکوہ نہ کر ۔۔۔۔۔۔۔



اے مرے دل کسی سے بھی شکوہ نہ کر اب بلندی پہ ترا ستارہ نہیں 
غیر کا ذکر کیا غیر پھر غیر ہے جو ہمارا تھا وہ بھی ہمارا نہیں